گرتے ہیں لوگ گرمئ بازار دیکھ کر
سرکار دیکھ کر مری سرکار دیکھ کر
آوارگی کا شوق بھڑکتا ہے اور بھی
تیری گلی کا سایۂ دیوار دیکھ کر
تسکین دل کی ایک ہی تدبیر ہے فقط
سر پھوڑ لیجئے کوئی دیوار دیکھ کر
ہم بھی گئے ہیں ہوش سے ساقی کبھی کبھی
لیکن تری نگاہ کے اطوار دیکھ کر
کیا مستقل علاج کیا دل کے درد کا
وہ مسکرا دیے مجھے بیمار دیکھ کر
دیکھا کسی کی سمت تو کیا ہو گیا عدمؔ
چلتے ہیں راہ رو سر بازار دیکھ کر
غزل
گرتے ہیں لوگ گرمئ بازار دیکھ کر
عبد الحمید عدم