گرجا میں مندروں میں اذانوں میں بٹ گیا
ہوتے ہی صبح آدمی خانوں میں بٹ گیا
اک عشق نام کا جو پرندہ خلا میں تھا
اترا جو شہر میں تو دکانوں میں بٹ گیا
پہلے تلاشا کھیت پھر دریا کی کھوج کی
باقی کا وقت گیہوں کے دانوں میں بٹ گیا
جب تک تھا آسمان میں سورج سبھی کا تھا
پھر یوں ہوا وہ چند مکانوں میں بٹ گیا
ہیں تاک میں شکاری نشانہ ہیں بستیاں
عالم تمام چند مچانوں میں بٹ گیا
خبروں نے کی مصوری خبریں غزل بنیں
زندہ لہو تو تیر کمانوں میں بٹ گیا
غزل
گرجا میں مندروں میں اذانوں میں بٹ گیا
ندا فاضلی