EN हिंदी
گری گر کر اٹھی پلٹی تو جو کچھ تھا اٹھا لائی | شیح شیری
giri gir kar uThi palTi to jo kuchh tha uTha lai

غزل

گری گر کر اٹھی پلٹی تو جو کچھ تھا اٹھا لائی

آغا شاعر قزلباش

;

گری گر کر اٹھی پلٹی تو جو کچھ تھا اٹھا لائی
نظر کیا کیمیا تھی رنگ چہروں سے اڑا لائی

خدا کے واسطے سفاکیاں یہ کس سے سیکھی ہیں
نظر سے پیار مانگا تھا وہ اک خنجر اٹھا لائی

نہ حسرت ہی نکلتی ہے نہ دل کو آگ لگتی ہے
مری ہستی مرے دامن میں کیا کانٹا لگا لائی

وہ سب بدمستیاں تھیں زر کی اب زر ہے نہ پیتے ہیں
ہماری مفلسی خود راہ پر ہم کو لگا لائی

مٹانے کو ہمارے یہ زمین و آسماں دونوں
ہمیشہ مل کے چلتے ہیں بہ ایں پستی و بالائی

جو کچھ دیکھا نہ دیکھا جو سنی وہ ان سنی شاعرؔ
نہ آئے ہم یہاں یہ زندگی مفت خدا لائی