گرہ جو کام میں ڈالے ہے پنجۂ تقدیر
مجال کیا کہ کھلے وہ بہ ناخن تدبیر
دلا تڑپھ کے تو نکلا پڑے ہے سینے سے
یہ گھر اجاڑ نہ اے گھر بسے پکڑ ٹک دھیر
شب فراق میں جاناں کی میں رہا جیتا
کہ سخت جان ہے مجھ کو حجاب دامن گیر
لب اس کے دیکھو تو ہے ظلم و خوں خوری کی دلیل
سیہ مسی پہ نہیں سرخ پان کی تحریر
یہ پھینک تیر نگہ جی سے مار ڈالیں ہیں
بتاؤ کر سکے بے جاں ستم کی کیا تقریر
ٹک آنکھ اٹھا کے جو دیکھا نظر سے دے پٹکا
نہ تھی یہ اظفریؔ اتنی گناہ کی تعزیر
غزل
گرہ جو کام میں ڈالے ہے پنجۂ تقدیر
مرزا اظفری