EN हिंदी
گرفت زیست میں ہوں قید بے حصار میں ہوں | شیح شیری
giraft-e-zist mein hun qaid-e-be-hisar mein hun

غزل

گرفت زیست میں ہوں قید بے حصار میں ہوں

بشیر احمد بشیر

;

گرفت زیست میں ہوں قید بے حصار میں ہوں
عذاب عرصہ گہہ جبر و اختیار میں ہوں

خیال ہے تو ابھی ڈھونڈ پھر ملوں نہ ملوں
ابھی میں تیرے اڑائے ہوئے غبار میں ہوں

بھڑک رہا ہے بدن روح کو خبر بھی نہیں
یہ کیا مقام ہے یہ کیسے شعلہ زار میں ہوں

میں کون ہوں ترے نزدیک یہ سوال نہیں
حباب ہوں کہ صدف بحر بے کنار میں ہوں

خود اپنے آپ سے ہر دم ہوں برسر پیکار
میں اپنی ذات کے میدان کارزار میں ہوں

میں بھید کیا تجھے دوں بے کراں خلاؤں کے
کہ میں ازل سے اسی حلقۂ مدار میں ہوں

تلاش کس کی ہے مجھ کو ابھی یہ کیا سوچوں
بشیرؔ ابھی تو میں اپنے ہی انتظار میں ہوں