گرفت سایۂ دیوار سے نکل آیا
میں ایک عمر کے آزار سے نکل آیا
نہ جاننا بھی تو اک جاننے کی صورت ہے
عجیب رخ مرے انکار سے نکل آیا
میں اپنی قیمت احساس کے جواز میں تھا
سو یہ ہوا کہ میں بازار سے نکل آیا
ابھی رکے بھی نہ تھے ہم پڑاؤ کی خاطر
نیا سفر نئی رفتار سے نکل آیا
سمجھ رہے تھے کہیں دفن ہو گیا ہوگا
وہ خوف پھر در و دیوار سے نکل آیا
میں چپ ہوا تو اسے بولنا ہی تھا اک دن
وہ زندہ حرف لب دار سے نکل آیا
کسی خیال سے کیا کیا خیال جاگ اٹھے
یہ شغل لمحۂ بیکار سے نکل آیا

غزل
گرفت سایۂ دیوار سے نکل آیا
اسحاق اطہر صدیقی