گر پڑے دانت ہوئے موئے سر اے یار سفید
کیوں نہ ہو خوف اجل سے یہ سیہ کار سفید
دو قدم فرط نزاکت سے نہیں چل سکتا
رنگ ہو جاتا ہے اس کا دم رفتار سفید
اس مسیحا کی جو آنکھیں ہوئیں گلزار میں سرخ
ہو گئی خوف سے بس نرگس بیمار سفید
گل نسریں کو نہیں جوش چمن میں بلبل
ہے نزاکت کے سبب چہرۂ گلزار سفید
گھر مرے شب کو جو وہ رشک قمر آ نکلا
ہو گئے پرتو رخ سے در و دیوار سفید
لب و دنداں کے تصور میں جو رویا میں کبھی
اشک دو چار بہے سرخ تو دو چار سفید
ہوئی سرسبز جو صحبت میں امانتؔ کی غزل
رنگ دشمن کا ہوا رشک سے اک بار سفید
غزل
گر پڑے دانت ہوئے موئے سر اے یار سفید
امانت لکھنوی