EN हिंदी
گلا نہیں کہ کناروں نے ساتھ چھوڑ دیا | شیح شیری
gila nahin ki kinaron ne sath chhoD diya

غزل

گلا نہیں کہ کناروں نے ساتھ چھوڑ دیا

زیب بریلوی

;

گلا نہیں کہ کناروں نے ساتھ چھوڑ دیا
مرے سفینے کا دھاروں نے ساتھ چھوڑ دیا

رہ حیات میں منزل کا آسرا کیسا
قدم قدم پہ غباروں نے ساتھ چھوڑ دیا

ہر ایک رخ سے سجا ہوتا زندگی کو مگر
میں کیا کروں کہ بہاروں نے ساتھ چھوڑ دیا

اداس دل نے اگر گیت گنگنایا بھی
شکستہ ساز کے تاروں نے ساتھ چھوڑ دیا

سلگ رہی ہے ابھی تک وہ آگ سینے میں
لگا کے جس کو شراروں نے ساتھ چھوڑ دیا

نظر نواز مذاق نظر نہ زیبؔ ہوا
ترے لطیف اشاروں نے ساتھ چھوڑ دیا