گلا کیا کروں اے فلک بتا مرے حق میں جب یہ جہاں نہیں
کہوں کیسے حال دل ان سے میں مری ہلتی تک یہ زباں نہیں
یہ بھنور ہیں بہر حیات کے میں ہوں خستہ حال و شکستہ دل
مری ڈگمگاتی ہے ناؤ اب کہیں ملتا مجھ کو کراں نہیں
تجھے ڈھونڈوں بھی تو کہاں کہ جب ہوں میں خود ہی ظلمت یاس میں
مجھے بزم ہستی میں مل سکا تیرے نقش پا کا نشاں نہیں
غم دل ہی میرا نکال دو مری زندگی سے جو تم اگر
تو وہ داستاں ہی کچھ اور ہے مرے حال دل کا بیاں نہیں
میں سناؤں کس کو یہ حال دل میں دکھاؤں کس کو یہ درد و غم
میں ہوں ایسی حالت زار میں کہ خود اپنا مجھ کو گماں نہیں
نہیں گیت بادہ و جام کے یہاں اور ہی کوئی بات ہے
کہ میں جس بلا میں ہوں مبتلا وہ بلائے عشق بتاں نہیں
تو ہے ذرہ ذرہ میں ضو فشاں نہیں ملتا پھر بھی کہیں نشاں
کوئی شغلؔ اب یہ بتائے کیا تو کہاں ہے اور کہاں نہیں
غزل
گلا کیا کروں اے فلک بتا مرے حق میں جب یہ جہاں نہیں
گور بچن سنگھ دیال مغموم