EN हिंदी
گیت میرے ہیں مگر نور سخن اس کا ہے | شیح شیری
git mere hain magar nur-e-suKHan us ka hai

غزل

گیت میرے ہیں مگر نور سخن اس کا ہے

نامی انصاری

;

گیت میرے ہیں مگر نور سخن اس کا ہے
حق تو یہ ہے کہ مرا جوہر فن اس کا ہے

پھول تو پھول ہیں کانٹوں کی روش بھی اس کی
باغباں کچھ بھی کہے رنگ چمن اس کا ہے

سبز موسم کی مرے در پہ جو دستک جاگی
میں نے جانا کہ یہی طرز سخن اس کا ہے

موج گل باد صبا رنگ چمن آب رواں
سارے عالم میں اگر ہے تو چلن اس کا ہے

اس کی پہچان فقط کوہ و سمندر سے نہیں
ذرۂ خاک بھی خورشید وطن اس کا ہے

اس سے کیا فرق پڑے طرز نوا سنجی پر
حمد اس کی ہے لبوں پر کہ بھجن اس کا ہے

میں یم وقت میں بہتا ہوا تنکا نامیؔ
یہ زمیں اس کی تماشائے زمن اس کا ہے