گیلی مٹی سے بدن بنتے ہوئے عمر لگی
مجھ کو صحرا سے چمن بنتے ہوئے عمر لگی
پختگی فکر میں یک لخت کہاں آتی ہے
میری سوچوں کو سخن بنتے ہوئے عمر لگی
ابن آدم کی ہوس سے ملی صدیوں میں نجات
بنت حوا کو دلہن بنتے ہوئے عمر لگی
فرق حالانکہ بہت تھوڑا ہے دونوں میں مگر
سر کے آنچل کو کفن بنتے ہوئے عمر لگی
ہم تو سمجھے تھے وہ مہکے گا گلوں کی مانند
پر اسے غنچہ دہن بنتے ہوئے عمر لگی
چند لمحوں میں تغیر یہ نہیں آیا ہے
چھل کو دنیا کا چلن بنتے ہوئے عمر لگی
میں تو بس اتنا کہوں گا مری مایوسی کو
شادؔ آشا کی کرن بنتے ہوئے عمر لگی
غزل
گیلی مٹی سے بدن بنتے ہوئے عمر لگی
شمشاد شاد