گھٹی گھٹی سی فضا میں شگفتگی تو ملی
چمن میں شکر ہے ہنستی کوئی کلی تو ملی
بلا سے برق گری میرے آشیانے پر
اندھیری رات کے رہرو کو روشنی تو ملی
رہا نہ شکوۂ بے چارگی کہ غربت میں
قدم قدم پہ سہارے کو بے کسی تو ملی
ہمارے دل سے کوئی پوچھے قدر اس مے کی
جو ایک بوند سہی وقت تشنگی تو ملی
سنبھل سنبھل کے مرے دل کو توڑنے والے
تری جفا میں محبت کی چاشنی تو ملی
کسی کا بھی نہ رکھا تھا خرد نے اپنے سوا
جنوں کی راہ پہ چلنے سے آگہی تو ملی
نہ تھا نصیب میں گر سیم و زر تو کیا ساقیؔ
در حبیب کی ہم کو گداگری تو ملی
غزل
گھٹی گھٹی سی فضا میں شگفتگی تو ملی
اولاد علی رضوی