گھرا ہوں دو قاتلوں کی زد میں وجود میرا نہ بچ سکے گا
میں زرد جنگل سے بچ گیا تو پہاڑ اک مشتعل ملے گا
ہزیمتوں کے سفر کا راہی افق کو دیکھے گا بے بسی سے
افق سے بڑھتا ہوا سمندر زمیں کو قدموں سے کھینچ لے گا
جلا کے گھر سے رقیب شمعیں ہوا میں ہم تم نکل پڑے ہیں
یہی ہے دونوں کو انتظار اب کہ پہلے کس کا دیا بجھے گا
پھر ایک سفاک سخت جھونکا برہنہ تر کر گیا شجر کو
جب اس کو دیکھو گے ختم شب میں تو پتے پتے سے ڈر لگے گا
گداز جسموں کی آہٹوں کا طلسم ٹوٹا نواح جاں میں
فضا سے اب کوئی ہاتھ بڑھ کر اجڑتے موسم میں آگ دے گا
غزل
گھرا ہوں دو قاتلوں کی زد میں وجود میرا نہ بچ سکے گا
مصور سبزواری