گھر سے تمہاری دی ہوئی چیزیں نکال دیں
جیسے خود اپنے جسم سے سانسیں نکال دیں
دیکھا بس اک دفعہ اسے میں نے قریب سے
پھر اہل شہر نے مری آنکھیں نکال دیں
حیرت ہے اس نے قید بھی خود ہی کیا مجھے
پھر خود مرے فرار کی راہیں نکال دیں
کچھ اس نے بھی سہیلیوں کے منہ سے سن لیا
کچھ میرے دوستوں نے بھی باتیں نکال دیں
اک پل میں ختم ہو گئی عمر طویل بھی
جب زندگی سے ہجر کی راتیں نکال دیں
جانے وہ کس کے واسطے لکھی گئیں اے دوست
میں نے مسودے سے جو نظمیں نکال دیں
غزل
گھر سے تمہاری دی ہوئی چیزیں نکال دیں
فخر عباس