EN हिंदी
گھر سے نکلنا جب مری تقدیر ہو گیا | شیح شیری
ghar se nikalna jab meri taqdir ho gaya

غزل

گھر سے نکلنا جب مری تقدیر ہو گیا

آغاز برنی

;

گھر سے نکلنا جب مری تقدیر ہو گیا
اک شخص میرے پاؤں کی زنجیر ہو گیا

اک حرف میرے نام سے دیوار شہر پر
یہ کیا ہوا کہ رات میں تحریر ہو گیا

میں اس کو دیکھتا ہی رہا اس میں ڈوب کر
وہ تھا کہ میرے سامنے تصویر ہو گیا

وہ خواب جس پہ تیرہ شبی کا گمان تھا
وہ خواب آفتاب کی تعبیر ہو گیا

میں تو زباں پہ لایا نہیں تیرا نام بھی
کیوں عشق میرا باعث تشہیر ہو گیا

آغازؔ اس نے جو بھی کہا میرے واسطے
وہ کیوں مرے کلام کی تفسیر ہو گیا