گھر سے میرا رشتہ بھی کتنا رہا
عمر بھر اک کونے میں بیٹھا رہا
اپنے ہونٹوں پر زباں کو پھیر کر
آنسوؤں کے ذائقے چکھتا رہا
وہ بھی مجھ کو دیکھ کر جیتا تھا اور
میں بھی اس کی آنکھ میں زندہ رہا
نسبتیں تھیں ریت سے کچھ اس قدر
بادلوں کے شہر میں پیاسا رہا
شہر میں سیلاب کا تھا شور کل
اور میں تہہ خانے میں سویا رہا
کھا رہی تھی آگ جب کمرہ حسنؔ
میں بس اک تصویر سے چمٹا رہا
غزل
گھر سے میرا رشتہ بھی کتنا رہا
حسن عباسی