EN हिंदी
گھر سے جاتا ہوں روز شام سے میں | شیح شیری
ghar se jata hun roz sham se main

غزل

گھر سے جاتا ہوں روز شام سے میں

جمال احسانی

;

گھر سے جاتا ہوں روز شام سے میں
رات بھر کے پروگرام سے میں

اے میری جان انتشار پسند
تنگ ہوں تیرے انتظام سے میں

یہ جو لڑتا جھگڑتا ہوں سب سے
بچ رہا ہوں قبول عام سے میں

میں اتارا گیا تھا عرش سے اور
فرش پر گر پڑا دھڑام سے میں

شکل کا لاحقہ نہیں ہمراہ
جانا جاتا ہوں صرف نام سے میں

کیا کہوں اوبنے لگا ہوں جمالؔ
ایک ہی جیسے صبح و شام سے میں