گھر سے جاتا ہوں روز شام سے میں
رات بھر کے پروگرام سے میں
اے میری جان انتشار پسند
تنگ ہوں تیرے انتظام سے میں
یہ جو لڑتا جھگڑتا ہوں سب سے
بچ رہا ہوں قبول عام سے میں
میں اتارا گیا تھا عرش سے اور
فرش پر گر پڑا دھڑام سے میں
شکل کا لاحقہ نہیں ہمراہ
جانا جاتا ہوں صرف نام سے میں
کیا کہوں اوبنے لگا ہوں جمالؔ
ایک ہی جیسے صبح و شام سے میں
غزل
گھر سے جاتا ہوں روز شام سے میں
جمال احسانی