گھر سے باہر کس بلا کا شور تھا
میرے گھر میں جیسے میں خود چور تھا
میں نے دل میں جھانک کر دیکھا اسے
پھر اسی کا عکس چاروں اور تھا
پہلے ناچا اور پھر رونے لگا
میرا دل بھی جیسے کوئی مور تھا
گھر کے اندر خاک کھانے کو نہ تھی
سرحدوں پر دشمنوں کا زور تھا
میں نے کل رستے میں دیکھا تھا اسے
مجھ کو کیا معلوم تھا وہ چور تھا
رات بھر علویؔ کو میں پڑھتا رہا
یار وہ شاعر تو سچ مچ بور تھا
غزل
گھر سے باہر کس بلا کا شور تھا
محمد علوی