EN हिंदी
گھر سے باہر کبھی نکلا کیجے | شیح شیری
ghar se bahar kabhi nikla kije

غزل

گھر سے باہر کبھی نکلا کیجے

جلیل حشمی

;

گھر سے باہر کبھی نکلا کیجے
حشمیؔ گلیوں میں ٹہلا کیجے

حسن باتوں میں بھی پیدا کیجے
سامنے آئنہ رکھا کیجے

کیوں کسی اور کو رسوا کیجے
اب کے اپنا ہی تماشا کیجے

پہلے خود آپ کو پرکھا کیجے
اور پھر شکوۂ دنیا کیجے

کہیں سولی نہ سمجھے لے کوئی
اپنی بانہوں کو نہ کھولا کیجے

سوچئے پھول کھلا ہے کیا کیا
صورت سنگ نہ دیکھا کیجے

اتنی فرصت بھی کسے ہے لیکن
گاہے گاہے ہمیں پوچھا کیجے

ہر کوئی منہ میں زباں رکھتا ہے
روکتا کون ہے بولا کیجے

یہ بھی انداز ہے اک چھپنے کا
اس قدر پاس نہ آیا کیجے

آنے لگتی ہے شکستوں کی صدا
ایسے خاموش نہ بیٹھا کیجے

ربط بھی رکھتا ہے معنی اپنے
بات بے بات نہ ٹوکا کیجے

حشمیؔ غم نے پھر انگڑائی لی
حشمیؔ پھر غزل انشا کیجے