EN हिंदी
گھر سے اب باہر نکلنے میں بھی گھبراتے ہیں ہم | شیح شیری
ghar se ab bahar nikalne mein bhi ghabraate hain hum

غزل

گھر سے اب باہر نکلنے میں بھی گھبراتے ہیں ہم

ناظر صدیقی

;

گھر سے اب باہر نکلنے میں بھی گھبراتے ہیں ہم
سنگ باری ہو کہیں بھی زد میں آ جاتے ہیں ہم

آ گلے لگ جا ہمارے تیرگیٔ شام غم
روشنی کے نام پر دھوکے بہت کھاتے ہیں ہم

ان کا کہنا ہے کہ بس ترک تعلق ہو چکا
ہم یہ کہتے ہیں کہ اب تنہا رہے جاتے ہیں ہم

یوں تو دنیا نے بھی رکھا ہے نشانے پر ہمیں
وحشت دل سے بھی کچھ آب و ہوا پاتے ہیں ہم

اس کے رخ پر ڈالتے ہیں اک اچٹتی سی نظر
اور پھر فکر سخن میں غرق ہو جاتے ہیں ہم

ہنس کے کر لیتے ہیں وہ اپنے ستم کا اعتراف
اور ان کی اس ادا پر قتل ہو جاتے ہیں ہم

دیکھتے ہیں مسکرا کر اپنے بچوں کی طرف
جب تھکن کا بوجھ اوڑھے اپنے گھر آتے ہیں ہم

اس قدر حالات نے ناظرؔ بدل ڈالا ہمیں
دوستوں کے درمیاں اب کم نظر آتے ہیں ہم