گھر سجائیں تو کیا تماشا ہو
اور جلائیں تو کیا تماشا ہو
ہم رقیبوں کے سامنے کھل کر
مسکرائیں تو کیا تماشا ہو
بات جو آج تک چھپائی تھی
اب بتائیں تو کیا تماشا ہو
ان کے اک اک ستم پہ ہم ان کو
خوں رلائیں تو کیا تماشا ہو
شیخ و زاہد کبھی رنگے ہاتھوں
ہاتھ آئیں تو کیا تماشا ہو
ہم بلا کر انہیں سر منزل
لوٹ جائیں تو کیا تماشا ہو
غزل
گھر سجائیں تو کیا تماشا ہو
واعظہ رفیق