EN हिंदी
گھر سجائیں تو کیا تماشا ہو | شیح شیری
ghar sajaen to kya tamasha ho

غزل

گھر سجائیں تو کیا تماشا ہو

واعظہ رفیق

;

گھر سجائیں تو کیا تماشا ہو
اور جلائیں تو کیا تماشا ہو

ہم رقیبوں کے سامنے کھل کر
مسکرائیں تو کیا تماشا ہو

بات جو آج تک چھپائی تھی
اب بتائیں تو کیا تماشا ہو

ان کے اک اک ستم پہ ہم ان کو
خوں رلائیں تو کیا تماشا ہو

شیخ و زاہد کبھی رنگے ہاتھوں
ہاتھ آئیں تو کیا تماشا ہو

ہم بلا کر انہیں سر منزل
لوٹ جائیں تو کیا تماشا ہو