EN हिंदी
گھر مجھے رات بھر ڈرائے گیا | شیح شیری
ghar mujhe raat bhar Darae gaya

غزل

گھر مجھے رات بھر ڈرائے گیا

رئیس فروغ

;

گھر مجھے رات بھر ڈرائے گیا
میں دیا بن کے جھلملائے گیا

کل کسی اجنبی کا حسن مجھے
یاد آیا تو یاد آئے گیا

کوئی گھائل زمیں کی آنکھوں میں
نیند کی کونپلیں بچھائے گیا

سفر عشق میں بدن اس کا
دور سے روشنی دکھائے گیا

اپنی لہروں میں رنج کا موسم
آنسوؤں کے کنول کھلائے گیا

شہر کا ایک برگ آوارہ
دشت و در کی ہنسی اڑائے گیا

اور مرا تین سال کا بچہ
اس حماقت پہ مسکرائے گیا

مجھ میں کیا بات تھی رئیس فروغؔ
وہ سجن کیوں مجھے رجھائے گیا