EN हिंदी
گھر میں بیٹھے سوچا کرتے ہم سے بڑھ کر کون دکھی ہے | شیح شیری
ghar mein baiThe socha karte humse baDh kar kaun dukhi hai

غزل

گھر میں بیٹھے سوچا کرتے ہم سے بڑھ کر کون دکھی ہے

خلیلؔ الرحمن اعظمی

;

گھر میں بیٹھے سوچا کرتے ہم سے بڑھ کر کون دکھی ہے
اک دن گھر کی چھت پہ چڑھے تو دیکھا گھر گھر آگ لگی ہے

جانے ہم پہ کیا کیا بیتی تن کا لہو سب صرف ہوا
رخ کی زردی بھی ہے غنیمت اب تو اپنی یہی پونجی ہے

اپنے آپ کو سمجھاتے ہیں رات ڈھلی اب تو بھی سو جا
ہم ہی اکیلے کیسے سوئیں دل کی دھڑکن جاگ رہی ہے

ہر دم فکر کے موتی رولیں پر دو میٹھے بول نہ بولیں
بھید یہاں کے کس پہ کھولیں دنیا ہی کنگال ہوئی ہے

سید نگری نئی نرالی بھور پھٹے سب ردی والے
روز پکاریں ردی بیچو آخر کتنی ردی ہے