گھر میں بیٹھے سوچا کرتے ہم سے بڑھ کر کون دکھی ہے
اک دن گھر کی چھت پہ چڑھے تو دیکھا گھر گھر آگ لگی ہے
جانے ہم پہ کیا کیا بیتی تن کا لہو سب صرف ہوا
رخ کی زردی بھی ہے غنیمت اب تو اپنی یہی پونجی ہے
اپنے آپ کو سمجھاتے ہیں رات ڈھلی اب تو بھی سو جا
ہم ہی اکیلے کیسے سوئیں دل کی دھڑکن جاگ رہی ہے
ہر دم فکر کے موتی رولیں پر دو میٹھے بول نہ بولیں
بھید یہاں کے کس پہ کھولیں دنیا ہی کنگال ہوئی ہے
سید نگری نئی نرالی بھور پھٹے سب ردی والے
روز پکاریں ردی بیچو آخر کتنی ردی ہے
غزل
گھر میں بیٹھے سوچا کرتے ہم سے بڑھ کر کون دکھی ہے
خلیلؔ الرحمن اعظمی