گھر کو کیسا بھی تم سجا رکھنا
کہیں غم کا بھی داخلہ رکھنا
گر کسی کو سمجھنا اپنا تم
دھوکہ کھانے کا حوصلہ رکھنا
اتنی قربت کسی سے مت رکھو
کچھ ضروری ہے فاصلہ رکھنا
ان کی ہر بات میٹھی ہوتی ہے
جھوٹی باتوں کا مت گلہ رکھنا
زندگی ایک بار ملتی ہے
اس کو جینے کا حوصلہ رکھنا
ناامیدی کو کفر کہتے ہیں
رب سے امید آصفہؔ رکھنا
غزل
گھر کو کیسا بھی تم سجا رکھنا
آصفہ زمانی