EN हिंदी
گھر کسی کا بھی ہو جلتا نہیں دیکھا جاتا | شیح شیری
ghar kisi ka bhi ho jalta nahin dekha jata

غزل

گھر کسی کا بھی ہو جلتا نہیں دیکھا جاتا

نفس انبالوی

;

گھر کسی کا بھی ہو جلتا نہیں دیکھا جاتا
ہم سے چپ رہ کے تماشہ نہیں دیکھا جاتا

تیری عظمت ہے تو چاہے تو سمندر دے دے
مانگنے والے کا کاسہ نہیں دیکھا جاتا

جب سے صحرا کا سفر کاٹ کے گھر لوٹا ہوں
تب سے کوئی بھی ہو پیاسا نہیں دیکھا جاتا

یہ عبادت ہے عبادت میں سیاست کیسی
اس میں کعبہ یا کلیسا نہیں دیکھا جاتا

میرے لہجہ پہ نہ جا قول کا مفہوم سمجھ
بات سچی ہو تو لہجہ نہیں دیکھا جاتا

عکس ابھرے گا نفسؔ گرد ہٹا دے پہلے
دھندھلے آئینے میں چہرہ نہیں دیکھا جاتا