EN हिंदी
گھر کے زنداں سے اسے فرصت ملے تو آئے بھی | شیح شیری
ghar ke zindan se use fursat mile to aae bhi

غزل

گھر کے زنداں سے اسے فرصت ملے تو آئے بھی

حبیب جالب

;

گھر کے زنداں سے اسے فرصت ملے تو آئے بھی
جاں فزا باتوں سے آ کے میرا دل بہلائے بھی

لگ کے زنداں کی سلاخوں سے مجھے وہ دیکھ لے
کوئی یہ پیغام میرا اس تلک پہنچائے بھی

ایک چہرے کو ترستی ہیں نگاہیں صبح و شام
ضو فشاں خورشید بھی ہے چاندنی کے سائے بھی

سسکیاں لیتی ہوائیں پھر رہی ہیں دیر سے
آنسوؤں کی رت مرے اب گلستاں سے جائے بھی

روز ہنستا ہے صلیبوں سے ادھر ماہ منیر
اس کے پیچھے کون ہے وہ چھب مجھے دکھلائے بھی