گھر ہو یا باہر وہی کڑوی کسیلی گفتگو
کب تلک سنتے رہیں ہم ایک جیسی گفتگو
چند لمحوں میں بھٹک جائے جو موضوعات سے
بے سبب وہ کیوں کیا کرتا ہے علمی گفتگو
اس کے لہجے میں تو ہلکی سی ندامت بھی نہیں
اک طرف ہم بھول جائیں پچھلی ساری گفتگو
پل میں رتی پل میں ماشا پل میں رائی کا پہاڑ
پک چکے ہیں کان سن سن کر سیاسی گفتگو
گھر کیا بیٹھا ہے دل میں آج تک اک ایک لفظ
کیا مصیبت بن گئی دو چار پل کی گفتگو
اب کوئی اپنائے چاہے مسترد کر دے مجھے
میں غزل میں کر نہیں پاؤں گا ننگی گفتگو
اچھے خاصے لوگ اٹھ جاتے ہیں محفل چھوڑ کر
جب کبھی ہوتی ہے کچھ لوگوں میں ادبی گفتگو
غزل
گھر ہو یا باہر وہی کڑوی کسیلی گفتگو
شاہد جمال