EN हिंदी
گھر ہے تو در بھی ہوگا دیوار بھی رہے گی | شیح شیری
ghar hai to dar bhi hoga diwar bhi rahegi

غزل

گھر ہے تو در بھی ہوگا دیوار بھی رہے گی

حمید الماس

;

گھر ہے تو در بھی ہوگا دیوار بھی رہے گی
زنجیر بھی ہلے گی جھنکار بھی رہے گی

تاریکیوں کے قلب تاریک تر میں ڈھونڈو
اک شمع ماورائے انوار بھی رہے گی

بہتر تھا بے رخی کا اظہار یوں نہ ہوتا
مانا کہ کچھ تو وجہ انکار بھی رہے گی

جس آنکھ کو چھپا کر رکھا ہے ہر نظر سے
وہ نیم وا بھی ہوگی بیدار بھی رہے گی

صحرا طلب کا گویا میدان کربلا ہے
پاؤں میں ریت سر پر تلوار بھی رہے گی

قربت کی ساعتوں میں دوری کا خوف ہوگا
سائے سے روشنی کی پیکار بھی رہے گی

ظاہر ہے سادگی بھی الماسؔ کے سخن سے
لیکن غزل کی فطرت پر کار بھی رہے گی