گھر ہے ترا تو شوق سے آنے کے لیے آ
لیکن میں یہ چاہوں گا نہ جانے کے لیے آ
یہ رخ بھی محبت کا دکھانے کے لیے آ
آ مجھ سے نظر پھیر کے جانے کے لیے آ
مدت سے ہوں میں تیری ملاقات کا طالب
آ مجھ پہ کوئی ظلم ہی ڈھانے کے لیے آ
پیمانوں سے پیتے ہیں پئیں رند خرابات
تو مجھ کو نگاہوں سے پلانے کے لیے آ
ارباب خرد کو ہے بڑا ناز خرد پر
تو ان کو بھی دیوانہ بنانے کے لیے آ
کیا میں ترے اس لطف کے قابل بھی نہیں ہوں
اے جان وفا دل ہی دکھانے کے لیے آ
برداشت اسے عشق کی غیرت نہ کرے گی
کیوں تجھ سے کہوں میں کہ زمانے کے لیے آ

غزل
گھر ہے ترا تو شوق سے آنے کے لیے آ
رمز آفاقی