EN हिंदी
گھر دروازے سے دوری پر سات سمندر بیچ | شیح شیری
ghar darwaze se duri par sat samundar bich

غزل

گھر دروازے سے دوری پر سات سمندر بیچ

ایوب خاور

;

گھر دروازے سے دوری پر سات سمندر بیچ
ایک انجانے دشمن کی ہے گھات سمندر بیچ

پھر یہ ہارنے والی آنکھیں جاگیں اس دھوکے میں
کوئی خواب بھنور میں آیا رات سمندر بیچ

اب کیا اونچے بادبان پر خواب ستارہ چمکے
آنکھیں رہ گئیں ساحل پر اور ہات سمندر بیچ

اس موسم میں کون کہاں تک دیا جلائے رکھے
ہوا چلے تو ڈال سے ٹوٹے پات سمندر بیچ

لہر سے لہر ملے تو دیکھو قطرے کی تنہائی
دل ایسی اک بوند کی کیا اوقات سمندر بیچ

ایک کہانی سوچ رہی ہے مجھ کو کون کہے
ایک جزیرہ ڈوب رہا ہے ذات سمندر بیچ

ایک سفر پتوار کا اپنا ایک سفر پانی کا
اور مسافر تنہا کھا گیا مات سمندر بیچ