EN हिंदी
گھر چھوڑا بے سمت ہوئے حیرانی میں | شیح شیری
ghar chhoDa be-samt hue hairani mein

غزل

گھر چھوڑا بے سمت ہوئے حیرانی میں

نامی انصاری

;

گھر چھوڑا بے سمت ہوئے حیرانی میں
کیسے کیسے دکھ جھیلے نادانی میں

تازہ ہوا میں اس کے نفس کی خوشبو تھی
قطرہ قطرہ ڈوب گیا میں پانی میں

کس نے جوڑا کیوں جوڑا مذکور نہیں
اس کا قصہ میری رام کہانی میں

چاند کو آگے بڑھنا اوج پہ جانا تھا
تارے ٹوٹے پل پل عین جوانی میں

کیسا تھا وہ پیکر خوبی کیا کہئے
آئینہ دو لخت ہوا حیرانی میں

دل پہ اچانک ثبت ہوا تا عمر رہا
ایسا بھی اک عکس ملا تھا پانی میں

ساری غزلیں اک جیسی ہی لگتی ہیں
کیا رکھا ہے نامیؔ جشن معانی میں