گھر بار کہاں کوچہ و بازار مری جاں
درویش کو دنیا نہیں درکار مری جاں
اک شہر زمیں بوس ہے آمد پہ تمہاری
رستے میں بچھے ہیں در و دیوار مری جاں
کیوں عرصۂ افلاک سیہ پوش ہے بولو
کس طرح زمیں ہو گئی گلنار مری جاں
کچھ پھول ہیں شاخوں سے ابھی جھول رہے ہیں
رخسار پہ رکھے ہوئے رخسار مری جاں
روتا ہوں تو سیلاب سے کٹتی ہیں زمینیں
ہنستا ہوں تو ڈھہ جاتے ہیں کہسار مری جاں
سنتے ہیں فلک بوس عمارت ہے تہہ آب
کیا شہر تھا کیا موج کی رفتار مری جاں
دل ہے کہ ابھی درد کے نرغے میں گھرا ہے
چہرہ ہے کہ عالم میں ہے اخبار مری جاں
تا عمر نہ ملنے کی کسک ساتھ رہے گی
پہلا تو نہیں آخری دیدار مری جاں

غزل
گھر بار کہاں کوچہ و بازار مری جاں
خورشید اکبر