گھنے ارمان گاڑھی آرزو کرنے سے ملتا ہے
خدا جاڑے کی راتوں میں وضو کرنے سے ملتا ہے
ہوا کی دھن درختوں کا سخن نغمے ہیں لیکن فن
دلوں کے چاک میں آنکھیں رفو کرنے سے ملتا ہے
خدا ان کو شعور تشنگی دیتا تو اچھا تھا
انہیں پیاسوں میں کیا شغل سبو کرنے سے ملتا ہے
یقیں دنیا نہیں کرتی مگر ہے تجربہ میرا
سکوں تو بت کدے میں ہاؤ ہو کرنے سے ملتا ہے
بدلتے رنگ زخموں کے ہیں نیلے سرخ اور کالے
فلک کو بھی یہ گردش چار سو کرنے سے ملتا ہے
افق پر قمقموں میں قمقمے ضم ہوتے جاتے ہیں
مزہ آنکھوں کا آنکھیں روبرو کرنے سے ملتا ہے
غزل
گھنے ارمان گاڑھی آرزو کرنے سے ملتا ہے
تفضیل احمد