گیسو رخ روشن سے وہ ٹلنے نہیں دیتے
دن ہوتے ہوئے دھوپ نکلنے نہیں دیتے
آنچل میں چھپا لیتے ہیں شمع رخ روشن
پروانے تو جل جائیں وہ جلنے نہیں دیتے
بکھرا دی وہیں زلف ذرا رخ سے جو سرکی
کیا رات ڈھلے رات وہ ڈھلنے نہیں دیتے
کس درجہ ہیں بے درد ترے ہجر کے صدمے
دل کو تری یادوں سے بہلنے نہیں دیتے
دیکھا ہے جسے بھی وہ گراتے ہیں نظر سے
چاہے بھی سنبھلنا تو سنبھلنے نہیں دیتے
گلشن پہ اداسی کی فضا دیکھ رہا ہوں
وہ درد کے موسم کو بدلنے نہیں دیتے
بے راہ نہ کیوں کر ہوں بھلا رہرو منزل
جب راہنما راہ پہ چلنے نہیں دیتے
وہ سامنے ہوتے ہیں تو ہوتا ہے یہ عالم
ارمان مچلتے ہیں مچلنے نہیں دیتے
غزل
گیسو رخ روشن سے وہ ٹلنے نہیں دیتے
پرنم الہ آبادی