EN हिंदी
گیسو کو ترے رخ سے بہم ہونے نہ دیں گے | شیح شیری
gesu ko tere ruKH se baham hone na denge

غزل

گیسو کو ترے رخ سے بہم ہونے نہ دیں گے

ساغر نظامی

;

گیسو کو ترے رخ سے بہم ہونے نہ دیں گے
ہم رات کو خورشید میں ضم ہونے نہ دیں گے

یہ درد تو آرام دو عالم سے سوا ہے
اے دوست ترے درد کو کم ہونے نہ دیں گے

مفہوم بدل جائے گا تسلیم و رضا کا
اب ہم سر تسلیم کو خم ہونے نہ دیں گے

صرصر کو سکھائیں گے لطافت کا قرینہ
پھولوں پہ ہواؤں کے ستم ہونے نہ دیں گے

اے کاتب تقدیر ہماری بھی رضا پوچھ
یوں نالۂ تقدیر رقم ہونے نہ دیں گے

جب تک ہے دل زار میں اک قطرۂ خوں بھی
کم مرتبۂ لوح و قلم ہونے نہ دیں گے

جو زندہ و حساس بتوں کی ہے امانت
اس سجدے کو ہم نذر حرم ہونے نہ دیں گے

اٹھ جائیں گے جوں باد صبا بزم سے تیری
تجھ کو بھی خبر تیری قسم ہونے نہ دیں گے

لاکھوں کا سہارا ہے یہی جام سفالیں
ساغر کو کبھی ساغر جم ہونے نہ دیں گے