غزل وہی ہے جو ہو شاخ گل نشاں کی طرح
اثر ہو جس میں جمال پری رخاں کی طرح
سمجھ رہے تھے کہ آساں ہے عشق کی منزل
حواس اڑنے لگے گرد کارواں کی طرح
اگر ہے دل میں کشش خود قریب آئیں گے
ابھی تو دور ہیں وہ مجھ سے آسماں کی طرح
مسرتوں کے خزینے بھی اس پہ قرباں ہیں
عزیز مجھ کو ترا غم ہے اپنی جاں کی طرح
سنا ہے جب سے میں خلوت گزیں ہوں کچھ احباب
مری تلاش میں ہیں مرگ ناگہاں کی طرح
جہاں جہاں سے گزرتے ہیں اہل عشق و وفا
نقوش راہ چمکتے ہیں کہکشاں کی طرح
سخن شناس نہ ہوں جس مقام پر شارقؔ
وہاں ہیں شعر و غزل جنس رائیگاں کی طرح

غزل
غزل وہی ہے جو ہو شاخ گل نشاں کی طرح
شارق ایرایانی