غزل مزاج ہے یکسر غزل کا لہجہ ہے
سراپا جیسے نزاکت کا استعارہ ہے
قدم قدم پہ چراغوں کی سانس رکتی ہے
کہ اب تو شہروں میں جینا عذاب لگتا ہے
جھلستی شام بدلنے لگی ہے پیراہن
ترے بدن کی تمازت میں سحر کیسا ہے
شگفتہ حرف نوا اجنبی سے لگتے ہیں
اداس لفظوں سے اپنا قدیم رشتہ ہے
نہ موسموں میں مہک ہے نہ رت جگوں میں اثر
تمہارے شہر کا موسم بھی کتنا پھیکا ہے
چہار سمت خیالوں کی ریت بکھری ہوئی
ہماری پیاس کا منظر یہ ریگ صحرا ہے
اب اپنی تشنہ لبی پر نہ جائیے گا اثرؔ
سمندروں کا محافظ بھی آج پیاسا ہے
غزل
غزل مزاج ہے یکسر غزل کا لہجہ ہے
محمد علی اثر