غزل کے شانوں پہ خواب ہستی بہ چشم پر نم ٹھہر گئے ہیں
یہ کس نے چھیڑی ہے تان ماضی رباب و سرگم ٹھہر گئے ہیں
فراق رت میں اکیلا منزل کی جستجو میں نکل پڑا ہوں
وصال لمحوں کے ہم قدم وہ قدم دما دم ٹھہر گئے ہیں
ابھی تو سوچا تھا تیری محفل میں ہم نہ آئیں گے اب دوبارہ
یہ کس صدا کا گماں ہوا ہے کہ یک بیک ہم ٹھہر گئے ہیں
وہ ساتھ جب تک رہے ہمارے بہار اپنے شباب پر تھی
وہ کیا گئے کہ دل و نظر میں اداس موسم ٹھہر گئے ہیں
محبتوں کے سفیر ہم ہیں جدا ہے طرز سفر ہمارا
جہاں بھی ذکر وفا ملا ہے وہاں پہ پیہم ٹھہر گئے ہیں
اجل کی کرنوں سے ہم کسی پل بھی خشک ہونے کے منتظر ہیں
بہت غنیمت ہے چند لمحے جو مثل شبنم ٹھہر گئے ہیں
پریم اگنی میں جھلسے نینا یہ پوچھ بیٹھے ہیں آج پھر سے
کہ برکھا رت میں سکھی بتا تو کہاں پہ بالم ٹھہر گئے ہیں
جہاں پہ کل تک تھی چھاؤں ذاکرؔ وہیں پہ ٹھہری ہے دھوپ اب کے
عجب ستم ہے کہیں پہ آ کر کہیں کے موسم ٹھہر گئے ہیں
غزل
غزل کے شانوں پہ خواب ہستی بہ چشم پر نم ٹھہر گئے ہیں
ذاکر خان ذاکر