غزل کا میری خاکہ دیکھتا ہے
جو اس گل کا سراپا دیکھتا ہے
پلٹ کر جب مسیحا دیکھتا ہے
مرے زخموں کو ہنستا دیکھتا ہے
طلسمی ہیں نئے انساں کی آنکھیں
کہ گھر میں رہ کے دنیا دیکھتا ہے
وہی کردار زندہ ہے جو اپنی
کہانی کو ادھورا دیکھتا ہے
یہ سن کر میری نیندیں اڑ گئی ہیں
کوئی میرا بھی سپنا دیکھتا ہے
جو اڑتے ہیں اڑیں غالبؔ کے پرزے
تماشائی تماشا دیکھتا ہے
سمندر بوند لگتا ہے کسی کو
کوئی ذرے میں صحرا دیکھتا ہے
نہ جانے کس میں ہے کتنی بصیرت
نہ جانے کون کتنا دیکھتا ہے
غزل
غزل کا میری خاکہ دیکھتا ہے
مہتاب عالم