EN हिंदी
غضب ہے جستجوئے دل کا یہ انجام ہو جائے | شیح شیری
ghazab hai justuju-e-dil ka ye anjam ho jae

غزل

غضب ہے جستجوئے دل کا یہ انجام ہو جائے

شعری بھوپالی

;

غضب ہے جستجوئے دل کا یہ انجام ہو جائے
کہ منزل دور ہو اور راستے میں شام ہو جائے

وہی نالہ وہی نغمہ بس اک تفریق لفظی ہے
قفس کو منتشر کر دو نشیمن نام ہو جائے

تصدق عصمت کونین اس مجذوب الفت پر
جو ان کا غم چھپائے اور خود بد نام ہو جائے

یہ عالم ہو تو ان کو بے حجابی کی ضرورت کیا
نقاب اٹھنے نہ پائے اور جلوہ عام ہو جائے

یہ میرا فیصلہ ہے آپ میرے ہو نہیں سکتے
میں جب جانوں کہ یہ جذبہ مرا ناکام ہو جائے

ابھی تو دل میں ہلکی سی خلش محسوس ہوتی ہے
بہت ممکن ہے کل اس کا محبت نام ہو جائے

جو میرا دل نہ ہو شعریؔ حریف ان کی نگاہوں کا
تو دنیا بھر میں برپا انقلاب عام ہو جائے