غضب ہے دیکھنے میں اچھی صورت آ ہی جاتی ہے
نہیں روکے سے دل رکتا طبیعت آ ہی جاتی ہے
بھرا ہے دل ہمارا دوستوں کی بے وفائی سے
کہاں تک ضبط باتوں میں شکایت آ ہی جاتی ہے
پڑے گا تیرے جی میں شک نہ سن غماز کی باتیں
ہزار آئینہ ہو دل پر کدورت آ ہی جاتی ہے
یہ کیا معلوم تھا یہ عشق سودائی بنائے گا
کہیں ٹلتی ہے آنے والی آفت آ ہی جاتی ہے
طلائی رنگ پر کیوں کر نہ ان لوگوں کو غرا ہو
یہ زر وہ چہرہ ہے خاطر میں نخوت آ ہی جاتی ہے
جنون عشق میں ہر چند کچھ غیرت نہیں لیکن
جو کوئی تان کرتا ہے حمیت آ ہی جاتی ہے
عجب روداد ہے اپنی بیاں کرتے ہیں ہم جس سے
نکل آتے ہیں آنسو اس کو رقت آ ہی جاتی ہے
نکل جائے نہ کیوں کر شہر سے مجنوں بیاباں کو
بشر کو اپنی عریانی سے غیرت آ ہی جاتی ہے
ہنسی اچھی نہیں دیکھو تمیز اس میں نہیں رہتی
کہ منہ لگ چلنے میں بوسے کی نوبت آ ہی جاتی ہے
لچکتے ہی کمر زلف رسا کی جھونک لینے سے
اثر معشوق پن کا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے
بہت اپنے کو شائستہ وہ غیروں میں بناتے ہیں
طبیعت میں جو گرمی ہے شرارت آ ہی جاتی ہے
کہاں تک نیک صحبت کا اثر ہوگا نہ انساں کو
ملے تانبا جو سونے سے تو رنگت آ ہی جاتی ہے
خدا صورت نہ دکھلائے مجھے آتش عذاروں کی
ہزار ان سے ہے دل ٹھنڈا حرارت آ ہی جاتی ہے
دعائے مغفرت جب مانگتے ہیں اس سے رو رو کر
برابر جوش میں خالق کی رحمت آ ہی جاتی ہے
کوئی محبوب اس کی جان کا سائل جو ہوتا ہے
جھکا لیتا ہے بحرؔ آنکھیں مروت آ ہی جاتی ہے
غزل
غضب ہے دیکھنے میں اچھی صورت آ ہی جاتی ہے
امداد علی بحر