گیا تھا بزم محبت میں خالی جام لیے
کٹی ہے عمر گدائی کا اتہام لیے
کہیں ہوئے بھی جو روشن محبتوں کے چراغ
ہوائیں دوڑ پڑیں وحشتوں کے دام لیے
طلسم راز نہ کھل جائے تنگ بینوں پر
تمہارے نام سے پہلے ہزار نام لیے
بھٹک رہا ہوں میں تنہائیوں کے جنگل میں
حیات رقص میں ہے حسن صبح و شام لیے
کبھی ملی تھی جو اک درد نارسا کی خلش
میں جی رہا ہوں وہی زخم ناتمام لیے
کسی کی یاد میں اکثر یہی ہوا محسوس
فلک زمین پہ اترا مہ تمام لیے
ملی ہے گردش ایام ہر زمانے میں
سحر امید کی اور جاں کنی کی شام لیے
غزل
گیا تھا بزم محبت میں خالی جام لیے
احتشام حسین