گیا سب اندوہ اپنے دل کا تھمے اب آنسو قرار آیا
نصیب جاگے ستارہ چمکا پھرے دن اپنے وہ یار آیا
کہو یہ ساقی سے آ خدارا کرے نہ کشتیٔ مے کنارا
خدا کی رحمت نے جوش مارا برستا ابر بہار آیا
اٹھائی کیا کیا نہ میں نے زحمت مگر نہ کی ترک اس کی الفت
رہا ہمیشہ میں صاف طینت کبھی نہ دل پر غبار آیا
ہوا ہے کیا طور شعلہ افشاں بھڑک اٹھی آتش گلستاں
جلائے دیتا ہے داغ ہجراں کہاں سے اڑ کر شرار آیا
خدا نباہے یہ آشنائی ہمیں یہ الفت کے لاگ بھائی
کسی دن اس پر جو دھوپ آئی یہاں قلق سے بخار آیا
کٹے تڑپنے میں زندگانی نہ لی کسی نے خبر ہماری
یہ حال پوچھا کہ عرش تک بھی ہمارا نالہ پکار آیا
کھٹک ہے آنکھوں میں میری اب تک دل اس کا بھی ہو رہا ہے دھک دھک
نہ دید مجھ کو ہوئی مبارک نہ راس اس کو سنگار آیا
کمند زلف رسا سے بارے بچے تو مژگاں نے تیر مارے
غضب ہے پیش نظر تمہارے جو کوئی آیا شکار آیا
بچھایا کمرے میں فرش جھٹ پٹ درست کی سیج کی سجاوٹ
سنی جو میں نے کسی کے آہٹ گمان گزرا کہ یار آیا
کبھی جو باجے کی لہر آئے حواس اڑائے وہ شب بجائے
فسوں کے بولوں پہ گت بنائے چھلاوا بن کر ستار آیا
چلے جو عاشق پہ تیر و خنجر ہوا وہ سر سبز سرخ ہو کر
چڑھا سر اس کا اگر سناں پر نہال الفت میں یار آیا
اسے سمجھتے ہیں جو ہیں غازی کہ سر کٹانا ہے سرفرازی
کرے گا کیا کوئی عشق بازی میں جان بد کے بدھار آیا
ہوئی یہ برباد زندگانی رہی نہ ہستی کی کچھ نشانی
صبا نے ہر چند خاک چھانی نہ ہاتھ مشت غبار آیا
یہ چاہنے والے چاہتے تھے گلے کا ہار اپنا کر کے رکھئے
دیے نہ کس کس نے اس کو دھاگے نہ دم میں وہ گلعذار آیا
وصال محبوب کی تمنا کسی پر اظہار کی نہ اصلاً
قران سعدین میں نے پوچھا جو کوئی اختر شمار آیا
چہک رہے ہیں چمن میں بلبل مہک رہے ہیں کھلے ہوئے کل
چھلک رہے ہیں پیالۂ مل خوشی ہے ابر بہار آیا
بتاؤ اے بحرؔ اپنی جب کی کسی سے تم نے بھی دل لگی کی
خوش آئی صورت کسی پری کی کسی پہ تم کو بھی پیار آیا
غزل
گیا سب اندوہ اپنے دل کا تھمے اب آنسو قرار آیا
امداد علی بحر