غور تو کیجے کہ یہ سجدہ روا کیوں کر ہوا
اس نے جب کچھ ہم سے مانگا تو خدا کیونکر ہوا
اے نگاہ شوق اس چشم فسوں پرداز میں
وہ جو اک پندار تھا آخر حیا کیونکر ہوا
اک ترازو عشق کے ہاتھوں میں بھی جب ہے تو وہ
عالم سود و زیاں سے ماورا کیونکر ہوا
دین و دانش دونوں ہی ہر موڑ پر تھے دل کے ساتھ
یک بیک دیوانہ دونوں سے خفا کیونکر ہوا
رہزنوں کے غول ادھر تھے رہبروں کی بھیڑ ادھر
آ گئے منزل پہ ہم یہ معجزہ کیونکر ہوا
خارزار دین و دانش لالہ زار حسن و عشق
دل کی اک وحشت سے طے یہ مرحلہ کیونکر ہوا
اپنے ذہنی زلزلوں کا نام جو رکھ لو مگر
دو دلوں کا اک تصادم سانحہ کیونکر ہوا
تیری محرومی اسے جو بھی کہے لیکن جمیلؔ
غیر سے اس نے وفا کی بے وفا کیونکر ہوا
غزل
غور تو کیجے کہ یہ سجدہ روا کیوں کر ہوا
جمیلؔ مظہری