غوغا کھٹ پٹ چیخم دہاڑ
اف آوازوں کے جھنکاڑ
رات گھنا جنگل اور میں
ایک چنا کیا پھوڑے بھاڑ
مجنوں کا انجام تو سوچ
یار مرے مت کپڑے پھاڑ
ظلمت مارے گی شب خون
روشنیوں کی لے کر آڑ
اپنا گنجا چاند سنبھال
میرے سر پر دھول نہ جھاڑ
آخر تجھ کو مانیں گے
نقادوں کو خوب لتاڑ
دیکھو کب تک باقی ہیں
دریا جنگل اور پہاڑ
ہمدم دیرینہ ہنس بول
یادوں کے مردے نہ اکھاڑ
پھر سورج سے ٹکرانا
دھرتی میں تو پنجے گاڑ

غزل
غوغا کھٹ پٹ چیخم دہاڑ
مظفر حنفی