گرمیٔ خوں الجھے لگی آخری منجمد پہر سے
دیکھیے اب گزرتے ہیں ہم کس قیامت کے شب شہر سے
یوں لگے درد بخشیدہ کی ابتدا بھی اک انتہا
سنگ چاٹے لب اشتہا پیاس بجھتی نہیں زہر سے
منتظر آنکھ کے دیس میں کوئی چھٹی بھی آیا نہیں
کون عافیت دوستاں لائے گا دوسرے شہر سے
میرے اندر کی ناپختگی جسم باہر کے بھی ڈھ گئی
گھر کے گھر زیر آب آ گئے اک شگافی ہوئی نہر سے
میری رائے میں اقبالؔ وہ نسل دنیا میں ہے اور نہیں
جس نے بخشا نہ کچھ وقت کو جس نے پایا نہ کچھ دہر سے
غزل
گرمیٔ خوں الجھے لگی آخری منجمد پہر سے
اقبال کوثر