گرمئ شوق نظارہ کا اثر تو دیکھو
گل کھلے جاتے ہیں وہ سایۂ تر تو دیکھو
ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے
ناصحو پند گرو راہ گزر تو دیکھو
وہ تو وہ ہے تمہیں ہو جائے گی الفت مجھ سے
اک نظر تم مرے محبوب نظر تو دیکھو
وہ جو اب چاک گریباں بھی نہیں کرتے ہیں
دیکھنے والو کبھی ان کا جگر تو دیکھو
دامن درد کو گلزار بنا رکھا ہے
آؤ اک دن دل پرخوں کا ہنر تو دیکھو
صبح کی طرح جھمکتا ہے شب غم کا افق
فیضؔ تابندگئ دیدۂ تر تو دیکھو
غزل
گرمئ شوق نظارہ کا اثر تو دیکھو
فیض احمد فیض