گرم لہو کا سونا بھی ہے سرسوں کی اجیالی میں
دھوپ کی جوت جگانے والے سورج گھول پیالی میں
ایک سراپا محرومی کا نقشہ تو نے کھینچ دیا
تلخی کی زہراب چمک بھی ہے کچھ چشم سوالی میں
رشتہ بھی ہے نشو و نما کا فرق بھی روشن لمحوں کا
سبز سراپا شاخ بدن اور جنگل کی ہریالی میں
لرزش بھی ہے سطح فلک پر گردش کرتے ستاروں کی
وقت کا اک ٹھہراؤ بھی ہے اس اورنگ خیالی میں
شعلہ در شعلہ سرخی کی موجوں کو تہہ دار بنا
وہ جو اک گہرائی سی ہے رنگ شفق کی لالی میں
آہستہ آہستہ اک اک بوند فلک سے ٹپکی ہے
کھینچ اک سناٹے کی فضا بھی شبنم کی اجیالی میں
زیبؔ نہ بن نقال آئینہ جیتی جاگتی آنکھیں کھول
اپنا ذہن اتار کے رکھ دے رنگوں کی اس تھالی میں
غزل
گرم لہو کا سونا بھی ہے سرسوں کی اجیالی میں
زیب غوری