گرم جوشی کے نگر میں سرد تنہائی ملی
چاندنی اس پیکر خاکی کو گہنائی ملی
بجھ گیا پھر شام کے صحرا میں سورج کا خیال
پھر مہ و انجم کو جی اٹھنے کی رسوائی ملی
پھر کوئی مثل صبا آیا ہے صحن خواب میں
پھر مرے ہر زخم کو یادوں کی پروائی ملی
اک پرانے نقش کے مانند سورج بجھ گیا
شب کے شانے پر ستاروں کی گھٹا چھائی ملی
خوبصورت آنکھ کو اک جھیل سمجھا تھا مگر
تیرنے اترا تو ساگر کی سی گہرائی ملی
پھر فضا میں رچ گئی ہے زخم تازہ کی مہک
پھر مری پلکوں کو شاہین بدرؔ گویائی ملی
غزل
گرم جوشی کے نگر میں سرد تنہائی ملی
شاہین بدر