EN हिंदी
گرم ہر لمحہ لہو جسم کے اندر رکھنا | شیح شیری
garm har lamha lahu jism ke andar rakhna

غزل

گرم ہر لمحہ لہو جسم کے اندر رکھنا

راسخ عرفانی

;

گرم ہر لمحہ لہو جسم کے اندر رکھنا
خشک آنکھیں ہوں مگر دل میں سمندر رکھنا

بات نکلے گی جوں ہی گھر سے پرائی ہوگی
پاؤں کچھ سوچ کے دہلیز سے باہر رکھنا

ظلمت شب میں کہیں خود ہی نہ ٹھوکر کھائے
دشمن جاں کے بھی رستے میں نہ پتھر رکھنا

زر، زمیں، زور کا سودا جو سمائے سر میں
روبرو نقشۂ انجام سکندر رکھنا

چڑھتے سورج کی چمک اپنی جگہ ہے لیکن
گزری راتوں کے بھی کچھ ذہن میں منظر رکھنا

کچھ نہ پائے گا انا بیچ کے درباروں سے
کیسی ہی بھیڑ بنے تکیہ خدا پر رکھنا

اس بلندی کا سفر سہل نہیں ہے راسخؔ
ہر قدم راہ محبت پہ سنبھل کر رکھنا